Orhan

Add To collaction

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر 

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر 
 از قلم ایف اے کے
قسط نمبر3

دلہن کو آئے بھی کافی دیر ہوچکی تھی وہ مومنہ (احد کی دلہن) سے مل آئی تھی وہ بھی احد کی طرح لگی اُسے معصوم سی پُر خلوص سی۔اب تو نکاح بھی ہونے والا تھا لیکن رضا ابھی تک اُسے کہیں نظر نہیں آیا تھا۔وہ بار بار ہال کے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔اور اُسے خود نہیں معلوم تھا وہ ایسا کیوں کررہی ہے۔ایسا ہوتا ہے کبھی کبھی کہ انسان کو خود نہیں پتا ہوتا کہ وہ آخر کر کیا رہا ہے۔۔۔
"وہ خاموشی سی بیٹھی دانین  کو دیکھ رہی تھی جو دوسرے کزن کے ساتھ مل کر کچھ نہ کچھ پرفوم کر رہی تھی۔۔بھائی کے شادی کے ارمان کس بہن کو نہیں ہوتے ہیں۔
لیکن اسکا دل بہت اداس ہورہا تھا۔اس نے احد کو دیکھا تھا وہ ہلکی سی مسکان کے ساتھ مومنہ سے باتیں کررہا تھا۔زاھراء کا دل کیا کہ اس سے جاکر پوچھے کہ تمہارا دوست کیوں نہیں آیا ۔۔لیکن موقع ہی ایسا تھا۔وہ سارا دن مصروف رہی تھی ایک ساتھ دو میٹنگ اٹینڈ کرنے کے بعد وہ تھک گئی تھی۔۔لیکن شاید رضا سے آج بات ہوجاہے وہ دوڑی آئی تھی۔۔۔
"نکاح کے لئے مولوی صاحب تشریف لے آئے تھے اور ان کے ساتھ وہ بھی تھا۔۔فل وائیٹ ڈریس میں بلیک  واسکٹ کے ساتھ۔وہ کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا بڑھی ہوئی شیو سنجیدہ سا انداز ۔۔زاھراء ایک دم پر سکون ہوگئی تھی ۔۔۔پتا نہیں کیوں اب ساری محفل دلچسپ لگ رہی تھی اُسے۔۔۔۔
نکاح ہوچکا تھا اب مبارکباد کا شور تھا ہر طرف۔۔وہ بھی احد مومنہ کو مبارک دینے اسٹیچ پر آئی تھی۔وہ کوئی بات کرتے ایک دم خاموش ہوگیا تھا ۔۔کسی اور نے یہ بات نوٹ کی ہو یا نہ کی ہو زاھراء کو ضرور محسوس ہوئی تھی۔۔وہ جلدی سے مبارک دیتی نیچے اتر آئی تھی۔۔۔
" وہ اب ہال میں روکنا نہیں چاہتی تھی پہلے اسکا انتظار اور اب اسکا رویہ اسکی برداشت سے باہر تھا اسکا دل کررہا تھا اونچا اونچا روئے۔۔۔۔لیکن یہاں رو نہیں سکتی تھی اس لئے جلدی سے کھانا کھا کر وہ احد مومنہ اور باقی سب کو خدا حافظ کہتی باہر آگئی تھی۔
         " اِنہیں گلہ تھا کہ میں نے اِنہیں نہیں چاہا 
           یہ اب جو میری توجہ سے خوف کھاتے ہیں"۔۔۔۔
                       ♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
وہ آرام سے ڈرائیونگ کررہی تھی۔رات بھی کافی ہوچکی تھی اس کے سر میں شدید درد ہورہا تھا۔۔بار بار اسکا سنجیدہ سا انداز اسے رنجیدہ کردیتا تھا اگر آج اسکا گروپ رضا کو ایسے دیکھ لیتا تو اسکو زندہ ناں چھوڑتا۔۔۔ایک ایک پل فلم کی طرح اسکے دماغ میں چل رہا تھا اسکا گھنٹوں اس کے انتظار میں کلاس سے باہر کھڑا رہنا ۔اور ایک بار جب سر نے اسے ڈانٹا تھا وہ لائبریری میں رونے گئی تھی تو وہ بچوں کی طرح اُسے بہلاتا رہا تھا 
"ایک تو سر میں درد اوپر سے" اسکا خیال" ایک دم اسکا دل چاہا کے گاڑی کئی ٹھوک دے۔۔
"وہ ان ہی باتوں میں الجھی تھی کہ اسکی گود میں رکھا موبائل جھٹکا لگنے کی وجہ سے نیچے گرا تھا۔اس نے ایک دم گاڑی روک دی تھی اور جھک کر موبائل اٹھایا وہ ایک دم سیدھی ہوئی تو اسکی نظر شیشہ پر پڑی تھی اسکی گاڑی سے پیچھے کچھ فاصلہ پر بلیک کرولا روکی ہوئی تھی۔اسے لگا جیسے ایک جھٹکے سے ابھی روکی ہے۔اس نے سر کو جھٹکتے گاڑی آگے بڑھا دی تھی ۔۔۔
اسنے کچھ دور جاتے پھر سے شیشہ میں دیکھا تھا ۔ابھی بھی وہ گاڑی کچھ فاصلہ رکھے اسکے پیچھے موجود تھی۔۔اس نے ایک دم سپیڈ بڑھا دی تھی۔بیس منٹ کا فاصلہ اسنے چھ منٹ میں طے کیا تھا وہ تو ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی ورنہ اب تک وہ اوپر جاچکی ہوتی۔۔
"چوکیدار نے اسے دیکھتے فوراً ددوازہ کھولا تھا۔۔وہ ایک جھٹکے سے گاڑی اندر لے آئی تھی۔وہ ایک دم اندر کی طرف دوڑی تھی اور جلدی سے ٹیرس تک پہنچی تھی اسکی سانس دوڑنے کی وجہ سے پھول رہی تھی اسنے اسکو بحال کرتے ٹیرس سے نیچے دیکھتا تھا۔۔
"وہ گاڑی اب بھی اس کے دروازے سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی۔وہ دور سے بس گاڑی کو ہی اچھے سے دیکھ سکی تھی۔۔۔شکر ہے بچ گئی پتا نہیں کون پاگل ہے۔۔اس نے خود کلامی کرتے اندر کی راہ لی تھی۔
                      ♡♡♡♡♡♡♡♡♡
وہ آفس میں بیٹھا کام کررہا تھا جب کوئی دروازہ کھول کے اندر آیا تھا۔وہ ایک دم چونکا تھا ۔وہ جتنا اس سے بھاگنا چاہتا تھا وہ اتنا ہی سامنے آتی تھی۔۔
"وہ آرام سے اس کے سامنے آکر بیٹھ گئی تھی۔۔
"جانتی ہوں تنگ کررہی ہوں تمہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ ملنا ضروری تھا۔۔
"میں نے آپ سے کہا تھا کہ میرے سامنے مت آیے گا ۔۔۔اس نے لیپ ٹاپ بند کرتے غصہ سے کہا تھا۔۔
"میں ہمیشہ کے لئے پاکستان نہیں آئی دو ہفتہ ہوگئے مجھے یہاں آئے میں نے ہزار بار تمہیں کال کی کئی بار تمہارے فلیٹ پر بھی گئی۔۔لیکن تم ہمیشہ ہی مصروف ملے۔۔وہ اسکی بات پے ایک دم غصہ ہوئی تھی
"مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی ہے۔۔۔!!وہ دوٹوک بولا تھا۔
"میں بس اتنا پوچھنا چاہتی ہوں کے یہ کیا حال بنا کر رکھا ہے تم نے اپنا۔۔۔۔جار سال گزر گئے ہیں رضا ۔تم وہی کھڑے ہو جہاں چار سال پہلے کھڑے تھے۔۔۔
"وہ مسکراتا ہوا اس تک آیا تھا ۔۔اس کی چیئر کو گھماتے اس نے اپنے سامنے کیا تھا
"غور سے دیکھے مجھے زاھراء احمد ۔۔چار سال پہلے آپ کے جانے کا سن کر میں کتنا تڑپا تھا اور اب چار سال بعد آپ میرے سامنے بیٹھی ہیں کئی تڑپ نظر آرہی ہے آپ کو وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے بولا تھا
" تم چار سال پہلے بھی بدتمیز تھے اور چار سال بعد بھی بدتميز ہو۔۔۔وہ اسکو پیچھے دھکیلتے ہوئے بولی تھی۔وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہ ہلا تھا۔
"کیوں آئی تھی پاکستان آتے ہی میرے گھر۔ یہ دیکھنے کہ محبت کا بخار اتر گیا ہونا۔۔مجھے شرمندہ کرنے آئی تھی ناں۔۔تو پھر کیسا لگا اپنا شرمندہ ہونا۔۔۔وہ تلخی سے پوچھ رہا تھا 
"چارسال ۔۔۔آپ کے تو ایسے گزر گئے ہونے اسنے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی تھی۔۔۔لیکن میں نے ایک ایک دن مسلسل عذاب میں کاٹا ہے۔۔۔مجھے کہتی تھی ناں آپ کے میں چار پانچ سال بعد اپنی اس محبت پر ہنسا کروں گا ۔قسم لے لیں بہت ہنسی آتی ہے اب۔۔
"رضا پیچھے ہٹو۔۔۔وہ اک دم چیخی تھی
"وہ کرسی کی ہینڈل پر بازو رکھتے مزید اس کی طرف جھکا تھا۔۔۔
"ترس تو نہیں آرہا مجھ پر۔۔وہ اس کے بہت قریب تھا اسکی سانسوں کی آواز وہ بہت آرام سے سن سکتی تھی۔۔وہ اس سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتی تھی اسنے اس  کے منہ پر زور کا تھپڑ مارا تھا
"وہ ایک دم ساکت ہوا تھا۔۔پھر وہ اسے چھوڑتا دور ہٹا تھاوہ ضبط کرنی کی کوشش کر رہا تھا اسنے ایک دم زور کا مکا ٹیبل پر مارا تھا جو ایک زور دار آواز سے ٹوٹا تھااور ساتھ اسکے ہاتھ کو بھی چیر گیا تھا ۔۔۔اسکے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا۔۔۔
"وہ ایک دم اسکی طرف بڑھی تھی ۔۔رضا دیکھاٶ مجھے ۔۔کیا کرلیا ہے یہ تم نے پاگل ہوتم کیا سارا ہاتھ زخمی کرلیا وہ ٹشو سے اسکا خون روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا ابھی تو تھپڑ مارا تھا اسنے اور اب اتنا پریشان ہورہی تھی۔۔۔
"میں ٹھیک ہوں۔اس نے ایک دم اس کا ہاتھ جھٹکا تھا اسکے لہجے میں انتہا کی سختی تھی وہ کچھ کہنے کے قابل ہی نہیں رہی تھی۔۔۔
"آپ نے کوئی اور بات کرنی ہے۔۔۔۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا۔۔وہ جب اس سے پاکستان آنے کے بعد ملی تھی تو اس کا سر جھکا ہوا تھا لیکن آج اسکی آنکھوں میں بے رحمی تھی سختی تھی۔۔۔"جب کوئی محبت کی انتہا پر بار بار دھتکارا جاتا ہے تو وہ ایک مقام پر ٹوٹ کر بکھرتا ہے پھر اسکا خود کو سمیٹنا کتنا مشکل ہوتا ہے یہ تو توڑنے والوں نے کبھی سوچا ہی نہیں۔۔۔۔
"وہ خاموشی سے اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔اس نے ایک آہ بھرتے نہ میں سر ہلایا تھا۔
"تو آپ کو کوئی اور کام ہے ۔۔وہ اسے کیا کہنا چاہتا تھا وہ سمجھ گئی تھی۔وہ ایک دم اپنا بیگ اٹھاتے دروازے کی طرف دوڈی تھی ۔۔کبھی کبھی ہم سے ناچاہتے ہوئے بھی بہت کچھ غلط ہوجاتا ہے۔۔جس کی معافی اتنی آسان نہیں ہوتی ہے۔۔۔
                         ♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
وہ ٹیرس میں کھڑا سیگریٹ پی رہا تھا جب احد نے اسکے ساتھ کھڑے ہوتے اسے پکارا تھا وہ ایک دم چونکا تھا ۔۔
"تم کب آئے ۔اس نے سمبھلتے ہوئے پوچھا تھا 
"ابھی آیا ہوں جب تم کسی اور دنیا میں پرواز کر رہے تھے۔یہ ہاتھ پے کیا ہوا ۔۔اس نے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے پوچھا تھا۔۔۔جس پر بینڈیج تھی
"کچھ نہیں بس چھوٹ لگ گئی۔ تم بتاٶ ۔نظر ہی نہیں آتے آج کل۔۔۔وہ بات بدل گیا تھا۔
"میں تو پھر نظر آجاتا ہوں جناب ۔آپ ذرا خود پر غور کرو میرے نکاح کے بعد توفیق  تک نہیں ہوئی تم کو ایک فون کرنے کی۔۔۔
"یار آفس میں کچھ بزی تھا۔وہ شرمندہ سا ہوگیا تھا۔
"بس کر جانتا ہوں میں تیرا آفس۔اُس نے اسکے ہاتھ سے سیگریٹ لیتے کش لگایا تھا۔۔۔
"یہ چوٹ اتفاقی ہے یا پھر سے لگا کرچلی گئی ہے۔۔اسنے دلچسپی سے اُسے دیکھتے پوچھا تھا
" بکواس مت کیا کر اسنے تھوڑا سا ترچھا ہوتے پیچھے موجود دیوار سے ٹیک لگائی تھی۔۔وہ رف سے حلیہ میں بھی اچھا لگتا تھا خوبصورت سی کنچی آنکھیں کھڑی ناک اور اسکے دائیں گال پر پڑتا ڈمپل ۔۔۔اسکے سرکل میں موجود بہت سی لڑکیاں اس سے دوستی کرتی تھی اور وہ بھی یہ ایڈونچر کرتا رہتا تھا لیکن زاھراء سے ملنے سے پہلے۔اب تو اسے اپنی بھی ہوش نہیں ہوتی تھی۔۔۔
"اگر بات کرنی ہے اس سے تو میں ملوا دیتا ہوں۔۔۔۔احد نے سیگریٹ کا آخری کش لیتے کہا تھا
"میرےاور اسکے درمیاں بات کرنے کے لئے کچھ نہیں بچا ہے۔۔۔وہ ایک دم غصہ ہوا تھا۔۔۔

   1
0 Comments